یہ کیسا باپ ہے!

تحریر:محمد زکی حیدری

 

جناب کہتے ہیں کہ قدیم مصر میں ایک شخص تھا، اس نے شادی کی مگر اسے اولاد نہیں ہوئی بیوی اچھی خاصی مالدار تھیں اما صاحب اولاد ہونے میں اپنے شوہر کی مدد نہ کرپانے کی بات کو لیکر بڑی مشوش رہتی، آخر اسے خیال آیا کہ کیوں نہ مصر کے بادشاہ کی طرف سے دی ہوئی ایک کنیز جو اس کے گھر کے کام کاج کرتی ہے، کو اپنے شوہر کو بخش دے اور اس سے عقد کر کے وہ صاحب اولاد ہو جائے، لہذا اس خاتون نے ایسا ہی کیا ور اپنی کنیز اپنے شوہر کو بخش دی، جب عقد ہوا تو بہت جلد اس کنیز سے اس شخص کو ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس شخص کی زندگی میں تو خوشیوں کی بہار سی آگئی مگر وہاں اس کی مالدار بیوی نے حکم جاری کیا کہ اس کنیز کو بمع اس کے بیٹے کسی دور افتادہ مقام پر چھوڑ آئے کیونکہ وہ ان دونوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتیں!عجب! اس شخص نے بجائے انکار کے اپنے نومولود اور بیوی کو لیا اور مصر سے دور ایک سنسان، سنگریلی بے آب و گیاہ زمین پر چھوڑنے کی غرض سے سفر شروع کیا۔ مقام مقصود پر پہنچ کر اس شخص نے اپنے نومولود اور بیوی کو اس ویرانے میں اتارا اور جب خود سواری سے اترنا چاہا تو اسے اپنی بیوی کی بات یاد آئی، اس کی بیوی نے اس شخص کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ سواری سے اترے بغیر واپس مصر آجائے لھذا اس شخص نے ایسا ہی کیا بغیر اترے واپس جانے لگا۔ نومولود بچے کی ماں نے آہ بکا کی اور لاکھ جتن کئے کہ آپ ہمیں یہاں کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہیں، میں تو میں اس نومولود کا کیا قصور کہ اس موت کی گھاٹی میں سسک سسک کر جان دے، دامن گیر ہوئی، سواری کی رقاب تھام لی کہ نہیں جانے دے گی۔ اس شخص نے اس عورت کی ایک بھی نہ سنی اور واپس مصر کوچ کیا۔ اللہ اکبر یه کیسا باپ ہے!

دوپہر کا وقت ہوا چاروں طرف آسمان سے باتیں کرتے ہوئے پہاڑ اور ان کے درمیاں گرم سنگریلی زمین پر ایک ماں اپنے نومولود کو گود میں لیئے موت کی منتظر ہے، دور دور تک انسان تو انسان پرند و چرند تک کا بھی کوئی نام و نشان نہیں، ماں پریشان، ماں حیران، ماں افسردہ، پہاڑیوں کے بیچ میں دوپہر کا سورج اپنی آب و تاب سے چمکنے لگا اور اس نے اس پتھریلی زمیں کو جہنم کے جیسا گرم کر دیا۔ جو تھوڑا سا پانی لائی تھی وہ ختم ہو چکا ، پستان میں دودہ کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں ، بچہ پیاس کے مارے چیخنے لگتا ہے! کیا کرے؟ سامنے ایک پہاڑی کی طرف دوڑتی ہے شاید کہیں کوئی پانی کا قطرہ میسر آجائے کہ نومولود کی حلق کو گیلا کر سکے مگر نہیں پہاڑ اور اس کے عقب میں بھی دور دور تک پہاڑہی پہاڑ، اتری اس پہاڑ سے، دوسرے پہاڑ کی جانب دوڑ لگائی لیکن مایوسی ۔۔۔! سمجھ گئی کہ اب اوپر والا ہی کچھ کرے تو کرے اس کے بس میں پانی کا انتظام کرنا ناممکن ہے! تھک ہارکے بیٹھ  گئی خود بھی پیاس کے مارے مرنے کو تھی کہ نومولود نے ایڑیاں رگڑیں اور یہ ادا خداوند متعال کو اتنی پسند آئی پانی کا چشمہ جاری ہوا۔۔۔

جی! آپ نے درست سمجھا میں کسی عام باپ کی ، کسی عام ماں کی، کسی عام نومولود کی نہیں بلکہ بت شکن حضرت ابراہیم (ع) اس کی مجاہدہ بیوی حضرت ھاجرہ (س) اور اسماعیل (ع) ہی کی بات بیان کر رہا ہوں۔ وہ سنگریلی زمین مکہ کی وادی تھی، اور بے اولاد زوجہء ابراہیم (ع) کا نام تھا سارہ (س)! بالقصہ اسماعیل (ع) کے اعجازنبوت سے زمزم جاری ہوا تو آس پاس کے پرندوں کے جھنڈ اس طرف آنے لگے، یہ دیکھ کر مکہ کے مضافات میں رہنے والے قبیلے جرہم کے کچھ لوگ اس طرف متوجہ ہوکر مکہ آئے اور بیبی (س) کی اجازت سے وہاں سکونت اختیار کی ، ہاجرہ (س) نے انہیں اپنی روداد سنائی، ابراہیم (ع) بھی کبھی کبھار ان کے یہاں سے چکر لگا لیا کرتے تھے۔

یہ ہے ھاجرہ (س)۔۔۔! اور دیکھیئے یہاں بیٹا سنِ بلوغت کو پہنچا وہاں سے وہی باپ جو اسے بچپن میں بیابان میں چھوڑ گیا تھا، چھری لے کر آگیا، بولا چلو بیٹا گردن کاٹنی ہے تمہاری! ارے۔۔۔! ہاجرہ (س) اٹھو دیکھو تو تمہارے شوہر کے کام! کوئی اور عورت ہوتی تو اٹھ کھڑی ہوتی کہتی کہ میاں دیا ہی کیا ہےتم نے؟ ہیں؟ تمہاری لاڈلی بیوی کے تو بچہ ہوا ہی نہیں، شکر کرو میں نے تمہارے  نرینہ اولاد جن کر دی، اور اس کا سلہ یہ دیا کہ ویرانے میں پھینک کر آ گئے؟ اور اب جب خون پسینہ بہا کر میں اسے پال پوس کر بڑا کیا تو آگئے کہ گردن کاٹنی ہے! بھیڑ بکری سمجھا ہے اسے؟ میرا لخت جگر ہے! ارے کرامتوں والا میرا لاڈلا جس کی کرامت سے چشمہ جاری ہوا اس کی گردن کاٹنے چلے ہو کیسے باپ ہو تم۔۔۔؟ لیکن نہیں! یہ ہاجرا (س) ہے! ظاہر کی نہیں باطن کی آنکھوں سے دیکھتی ہے، اللہ (ج) کا منتخب نبی جب کہہ رہا ہے تو بس! اللہ (ج) اور بس بات ختم! یہی وجہ تھی کہ اللہ (ج) نے بھی ہاجرہ (س) کو عزت بخشی کہ کوئی کتنا بھی بڑا پھنے خان ہو حج پر جائے گا تو اس ہاجرہ (س) کے قدموں پر قدم رکھ کر نہیں دوڑے گا حاجی نہیں کہلائے گا۔

میری ماؤں، بہنو! اللہ (ج) اپنے بندوں کو آزماتا ہے،آپ جب تکلیف میں ہوں تو ھاجرہ (س) کو یاد کریں، ہاجرہ (س) اور اس کے نومولود کا عکس اپنے ذہن میں لائیں، بیابان کو یا د کریں، پتھریلی، تپتی زمین و تنہائی و بے سر و سامانی۔۔۔! اس سے دو فائدے ہوں گے ایک تو آپ کے اندر استقامت و صبر پیدا ہوگا آپکو آپکی تکلیف ناچیز محسوس ہوگی اور دوسری بات یہ کہ اس تکلیف کے بعد آنے والے  الہٰی انعامات کی امید آپ کے اندر پیدا ہوگی، کیا ایسا ہو سکتا ہے اللہ (ج) آزمائے اور اس آزمائش میں کامیابی پر انعام سے نہ نوازے؟ نہیں ایسا نہیں ہوتا لہٰذا آج اگر آپ کو اپنی زندگی مکہ کی سی گرم وادی کی طرح محسوس ہو رہی ہے پھر بھی آپ اللہ (ج) سے پر امید ہیں، تویقین جانئے کہ اللہ (ج) آپ کی زندگی میں زم زم جاری کرنے والا ہے، آپ کے قدموں کے نشانات پر دنیا بھر کے انسانوں کو چلانے والا ہے۔

 

www.facebook.com/arezuyeaab

arezuyeaab.blogspot.com